UCLkHN_A8TPz3oNUjsSrEgUg

Tuesday, March 7, 2017


مکہ مکرمہ(این این آئی)مسجد حرام کی پرانی تصاویر اکثر منظرعام پر آتی رہتی ہیں مگران میں بعض ایسی فقید المثال اور نادر تصاویر ہوتی ہیں جو آنے والے زمانوں میں اس مقدس مقام کی تفصیلات بھی اپنے جلو میں سموئے رہیں گی۔ایسی ایک تصویر ان دنوں تیزی کے ساتھ مقبول ہوئی ہے۔ حرم مکی کی یہ تصویر 63 سال پرانی ہے جسے سنہ 1954ءمیں کھینچا گیا تھا۔


اس میں مسجد حرام، کعبہ شریف، صحن مطاف، حفاظتی دیوار(باڑ) جس میں باب بنو شیبہ بنایا گیا واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق حرمین شریفین کے امور کے ماہر محی الدین الھاشمی کا کہنا تھاکہ ’عثمانی کوری ڈور‘ میں موسم گرما میں نمازیوں کو سایہ فراہم کرنے کے لیے چھاتے شاہ عبدالعزیز آل سعود کے حکم پر لگائے گئے تھے۔مذکورہ تصویر میں مسجد حرام کے چار اہم مقامات جن میں مقام ابراہیم بھی شامل ہے دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ تصویر میں زمزم کی عمارت بھی نمایاں نظر آتی ہے۔صحن مطاف دو حصوں میں منقسم ہے۔ کعبہ شریف کے اطراف میں صحن مطاف کے باہر ایک حفاظتی دیوار بھی موجود ہے۔ اس دیوارکو مسجد حرام کے چار اہم مقامات سے مربوط کیا گیا تھا۔
الھاشمی کا کہناتھا کہ عثمانی کوری ڈور مسجد حرام کے مقامات اربعہ کے درمیان ریتلی جگہ کی تصویر بھی دیکھی جاسکتی ہے۔خیال رہے کہ مسجد حرام میں مقامات اربعہ اب باقی نہیں رہے ہیں۔ یہ مقامات چار اسلامی مذاہب الشافعی، الحنبلی، مالکی اور حنفی مسالک کی نمائندگی کرتے تھے۔ ان مقامات پر چاروں مسالک کے آئمہ نمازوں کی الگ الگ امامت بھی کرتے رہے ہیں مگر اب تمام مسالک کو ایک ہی امام کی اقتداءمیں نماز کے لیے متحد کردیا گیا ہے۔حرم مکی کی تصاویر سب سے پہلے 1880ءمیں کھینچی گئی تھی۔

جن لوگوں کی کمر میں اکثر درد رہتی ہے وہ جلد ۔ ۔ ۔“ سائنسدانوں نے ایسا انکشاف کردیا کہ کمر درد کا شکار رہنے والے افراد کے پیروں تلے زمین نکل جائے گی

سڈنی(نیوزڈیسک) اگر آپ کی کمر میں درد رہتا ہے تو یہ انتہائی تشویشناک بات ہے کیونکہ حال ہی میں کی گئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جن لوگوں کی کمر میں درد رہتا ہے وہ جلد مرجاتے ہیں۔ European Journal of Painمیں شائع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کمر میں مسلسل درد کی شکایت کرنے والے افراد کی موت جلد واقع ہوسکتی ہے۔ سائنسدانوں نے 4,390جڑواں افراد کا مطالعہ کیا جن کی عمریں 70سال سے زائد تھیں۔ یہ بات مشاہدے میں آئی کہ جن لوگوں کی کمر میں درد تھا ان کی موت کے امکانات دیگر افراد سے 13فیصد زیادہ تھے۔ یونیورسٹی آف سڈنی کے تحقیق کار پاﺅلو فریراکا کہنا ہے کہ جڑواں افراد پر تحقیق کی وجہ سے اس بات کو رد کرنے میں مدد ملی کہ جلد موت جنیاتی طور پر ہوئی تھی۔”جڑواں کے جینز یکساں ہوتے ہیں لہذا اس بات کا امکان بھی ختم ہوگیا کہ موت جنیاتی وجوہات سے ہوئی۔“ اس کا کہنا تھا کہ کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ کمر کا درد زیادہ خطرناک نہیں ہوتا لیکن ایسے لوگوں کو بتانا چاہوں گا کہ اس کی وجہ سے جلد موت واقع ہوسکتی ہے۔ گو کہ ماہرین جلد موت اور کمر کے درد کے درمیان تعلق کو واضح نہیں کرسکے لیکن ان کا کہنا ہے کہ اعدادوشمار میں یہ بات ہوش اڑانے کے لئے کافی ہے کہ اس کی وجہ سے جلد موت ہوسکتی ہے۔

وزن کم کرنے کا وہ آسان ترین قدرتی مشروب جس کی افادیت نے ڈاکٹر وں کوبھی حیران کردیا صرف ایک ہفتے میں اتنا وزن کم ہوگا کہ آپ ابھی یہ مشروب پینے لگیں گے

نیویارک(نیوزڈیسک) دنیا کی بڑی آبادی زیادہ وزن اور توند کے ہاتھوں پریشان رہتی ہے اور اسے کم کرنے کے لئے تگ و دو کرتی ہے۔اگر آپ بھی اس مسئلے سے دوچار ہیں تو پریشان نہ ہوں ،آئیے آپ کو ایسا نسخہ بتاتے ہیں جس پر عمل کرکے آپ اپنی توند کم کرلیں گے، ڈاکٹر حضرات بھی اس کی افادیت دیکھ کر حیران رہ چکے ہیں۔
اجزاء
250ملی لیٹر پانی
ایک چائے کا چمچ دارچینی
دوکھانے کا چمچ شہد
بنانے کا طریقہ
پانی کو ابلنے پر اس میں دارچینی ڈالیں اور چولہا بند کردیں اور پانی ٹھنڈا ہونے پر اس میں شہد ملادیں۔
استعمال کا طریقہ
آدھا کپ رات کو سونے سے پہلے پئیں اور بقیہ پانی صبح کے وقت ناشتے سے قبل نوش فرمائیں۔چند ہی دنوںمیں آپ کو مثبت نتیجہ ملے گا، اس کے بعد آپ چاہیں تو اس نسخے کو تب تک جاری رکھ سکتے ہیں جب تک آپ کا وزن آپ کی خواہش کے مطابق نہیں ہوجاتا۔

Friday, March 3, 2017




جمعہ کے دن سورۃ الکہف پڑھنے کے متعلق احادیث آتی ہیں ، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے والے کے لئے دو جمعوں کے درمیانی عرصہ کے لئے روشنی رہتی ہے ۔ ( سنن بیہقی ص249 ج 3 )

کہف
قرآن مجید کی 18 ویں سورت جو مکہ میں نازل ہوئی۔ اس میں اصحاب کہف، حضرت خضر علیہ السلام اور ذوالقرنین کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔۔۔
نام
اس سورت کا نام پہلے رکوع کی نویں آیت "اذ اوی الفتیۃ الی الکھف" سے ماخوذ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سورت جس میں کہف کا لفظ آیا ہے۔

زمانۂ نزول
یہاں سے اُن سورتوں کا آغاز ہوتا ہے جو مکی زندگی کے تیسرے دور میں نازل ہوئی ہیں۔ مکی زندگی کو چار بڑے بڑے دوروں میں تقسیم کیا گیا ہے جن کی تفصیل سورۂ انعام کے مضمون میں گزر چکی ہے۔ اس تقسیم کے لحاظ سے تیسرا دور تقریباً 5 نبوی کے آغاز سے شروع ہو کر قریب قریب 10 نبوی تک چلتا ہے۔ اس دور کو جو چیز دوسرے ادوار سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے دور میں تو قریش نے نبی آخر الزماں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کی تحریک اور جماعت کو دبانے کے لیے زیادہ تر تضحیک، استہزاء، اعتراضات، الزامات، تخویف، اطماع اور مخالفانہ پروپیگنڈے پر اعتماد کر رکھا تھا مگر اس تیسرے دور میں انہوں نے ظلم و ستم، مار پیٹ اور معاشی دباؤ کے ہتھیار پوری سختی کے ساتھ استعمال کیے یہاں تک کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو ملک چھوڑ کر حبش کی طرف نکل جانا پڑا اور باقی ماندہ مسلمانوں کو اور ان کے ساتھ خود نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے خاندان کو شِعبِ ابی طالب میں محصور کرکے ان کا مکمل معاشی اور معاشرتی مقاطعہ کردیا گیا تاہم اس دور میں دو شخصیتیں ---ابو طالب اور ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا---- ایسی تھیں جن کے ذاتی اثر کی وجہ سے قریش کے دو بڑے خاندان نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پشت پناہی کررہے تھے۔ 10 نبوی میں دونوں کی آنکھیں بند ہوتے ہی یہ دور ختم ہوگیا اور چوتھا دور شروع ہوا جس میں مسلمانوں پر مکے کی زندگی تنگ کردی گئی یہاں تک کہ آخر کار نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سمیت تمام مسلمانوں کو مکہ سے نکل جانا پڑا۔
سورۂ کہف کے مضمون پر غور کرنے سے اندازا ہوتا ہے کہ یہ تیسرے دور کے آغاز میں نازل ہوئی ہوگی جبکہ ظلم و ستم اور مزاحمت نے شدت تو اختیار کرلی تھی مگر ابھی ہجرتِ حبشہ واقع نہیں ہوئی تھی۔ اس وقت جو مسلمان ستائے جارہے تھے ان کو اصحابِ کہف کا قصہ سنایا گیا تاکہ ان کی ہمت بندھے اور انہیں معلوم ہو کہ اہل ایمان اپنا ایمان بچانے کے لیے اس سے پہلے کیا کچھ کرچکے ہیں۔

موضوع اورمضمون
یہ سورت مشرکین مکہ کے تین سوالات کے جواب میں نازل ہوئی جو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا امتحان لینے کے لیے اہل کتاب کے مشورے سے آپ کے سامنے پیش کیے تھے۔ اصحاب کہف کون تھے؟ قصۂ خضر کی حقیقت کیا ہے؟ اور ذوالقرنین کا کیا قصہ ہے؟ یہ تینوں قصے عیسائیوں اور یہودیوں کی تاریخ سے متعلق تھے۔ حجاز میں ان کا کوئی چرچا نہ تھا، اسی لیے اہل کتاب نے امتحان کی غرض سے ان کا انتخاب کیا تھا تاکہ یہ بات کھل جائے کہ واقعی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس کوئی غیبی ذریعۂ علم ہے یا نہیں۔ مگر اللہ تعالٰیٰ نے صرف یہی نہیں کہ اپنے نبی کی زبان سے ان کے سوالات کا پورا جواب دیا بلکہ ان کے اپنے پوچھے ہوئے تینوں قصوں کو پوری طرح اُس صورتحال پر چسپاں بھی کردیا جو اس وقت مکہ میں کفر و اسلام کے درمیان درپیش تھی:
اصحابِ کہف کے متعلق بتایا کہ وہ اُسی توحید کے قائل تھے جس کی دعوت یہ قرآن پیش کررہا ہے، اور ان کا حال مکے کے مٹھی بھر مظلوم مسلمانوں کے حال سے اور ان کی قوم کا رویہ کفار قریش کے رویے سے کچھ مختلف نہ تھا۔ پھر اسی قصے سے اہل ایمان کو یہ سبق دیا کہ اگر کفار کا غلبہ بے پناہ ہو اور ایک مومن کو ظالم معاشرے میں سانس لینے تک کی مہلت نہ دی جارہی ہو، تب بھی اس کو باطل کے آگے سر نہ جھکانا چاہیے بلکہ اللہ کے بھروسے پر تن بتقدیر نکل جانا چاہیے۔ اسی سلسلے میں ضمناً کفار مکہ کو یہ بھی بتایا کہ اصحاب کہف کا قصہ عقیدۂ آخرت کی صحت کا ایک ثبوت ہے۔ جس طرح خدا نے اصحاب کہف کو ایک مدت دراز تک موت کی نیند سلانے کے بعد پھر جلا اٹھایا، اسی طرح اُس کی قدرت سے وہ بعث بعد الموت بھی کچھ بعید نہیں ہے جسے ماننے سے تم انکار کررہے ہو۔
اصحاب کہف کے قصے سے راستہ نکال کر اس ظلم و ستم اور تحقیر و تذلیل پر گفتگو شروع کردی گئی جو مکے کے سردار اور کھاتے پیتے لوگ اپنی بستی کی چھوٹی سی نو مسلم جماعت کے ساتھ برت رہے تھے۔ اس سلسلے میں ایک طرف نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہدایت کی گئی کہ نہ ان ظالموں سے کوئی مصالحت کرو اور نہ اپنے غریب ساتھیوں کے مقابلے میں ان بڑے بڑے لوگوں کو اہمیت دو۔ دوسری طرف ان رئیسوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ اپنے چند روز عیشِ زندگانی پر نہ پھولو بلکہ ان بھلائیوں کے طالب بنو جو ابدی اور پائیدار ہے۔
اسی سلسلۂ کلام میں قصۂ خضر و موسیٰ کچھ اس انداز سے سنایا گیا کہ اس میں کفار کے سوالات کا جواب بھی تھا اور مومنین کے لیے سامان تسلی بھی۔ اس قصے میں دراصل جو سبق دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کی مشیت کا کارخانہ جن مصلحتوں پر چل رہا ہے وہ چونکہ تمہاری نظر سے پوشیدہ ہیں اس لیے تم بات بات پر حیران ہوتے ہو کہ یہ کیوں ہوا؟ یہ تو بڑا غضب ہوا! حالانکہ اگر پردہ اٹھا دیا جائے تو تمہیں خود معلوم ہوجاۓ کہ یہاں جو کچھ ہورہا ہے ٹھیک ہورہا ہے اور بظاہر جس چیز میں برائی نظر آتی ہے، آخر کار وہ بھی کسی نتیجۂ خیر ہی کے لیے ہوتی ہے۔
اس کے بعد قصۂ ذوالقرنین ارشاد ہوتا ہے اور اس میں سائلوں کو یہ سبق دیا جاتا ہے کہ تم اپنی اتنی ذرا ذرا سی سرداریوں پر پھول رہے ہو حالانکہ ذوالقرنین اتنا بڑا فرمانروا اور ایسا زبردست فاتح اور اس قدر عظیم الشان ذرائع کا مالک ہو کر بھی اپنی حقیقت کو نہ بھولا تھا اور اپنے خالق کے آگے ہمیشہ سرِ تسلیم خم رکھتا تھا۔ نیز یہ کہ تم اپنی ذرا ذرا سی حویلیوں اور باغیچوں کی بہار کو لازوال سمجھ بیٹھے ہو، مگر وہ دنیا کی سب سے زیادہ مستحکم دیوارِ تحفظ بنا کر بھی یہی سمجھتا تھا کہ اصل بھروسے کے لائق اللہ ہے نہ کہ یہ دیوار۔ اللہ کی مرضی جب تک یہ دیوار دشمنوں کو روکتی رہے گی اور جب اس کی مرضی کچھ اور ہوگی تو اس دیوار میں رخنوں اور شگافوں کے سوا کچھ نہ رہے گا۔
اس طرح کفار کے امتحانی سوالات کو انہی پر پوری طرف الٹ دینے کے بعد خاتمۂ کلام میں پھر انہی باتوں کو دہرا دیا گیا ہے جو آغاز کلام میں ارشاد ہوئی ہیں، یعنی کہ توحید اور آخرت سراسر حق ہیں اور تمہاری اپنی بھلائی اسی میں ہے کہ انہیں مانو، ان کے مطابق اپنی اصلاح کرو اور خدا کے حضور اپنے آپ کو جوابدہ سمجھتے ہوئے دنیا میں زندگی بسر کرو۔ ایسا نہ کرو گے تو تمہاری اپنی زندگی خراب ہوگی اور تمہارا سب کچھ کیا کرایا اکارت جائے گا۔

Thursday, March 2, 2017


ایک بہت هی گنہگار شخص حج ادا کرنے چلا گیا وهاں کعبہ کا غلاف پکڑ کر بولا
’’الٰہی اس گھر کی زیارت کو حج کہتے ہیں اور کلمہ حج میں دو حرف ہیں، "ح" سے تیرا حکم اور "ج" سے میرے جرم مراد ہیں۔ تو اپنے حکم سے میرے جرم معاف فرما دے"۔

آواز آئی!
اے میرے بندے تو نے کتنی عمدہ مناجات کی پھر کہو!

وہ دوبارہ نئے انداز سے یوں پکارتا ہے:
’’اے میرے بخشن ہار! اے غفار! تیری مغفرت کا دریا گنہگاروں کی مغفرت و بخشش کیلئے پرجوش ہے اور تیری رحمت کا خزانہ ہر سوالی کیلئے کھلا ہے
الٰہی! اس گھر کی زیارت کو حج کہتے ہیں اور حج دو حرف پر مشتمل ہے ’’ ح" اور "ج‘‘۔ ’’ ح" سے میری حاجت اور ’’ ج" سے تیرا جُود و کرم ہے۔ تو اپنے جُود و کرم سے اس مسکین کی حاجت پوری فرما دے"

آواز آئی’’ اے جوان مرد تو نے کیا خوب حمد کی، پھر کہو‘‘۔

وہ پھر عرض کرنے لگا
اے خالق کائنات!
"تیری ذات ہر عیب و نقص اور کمزوری سے پاک ہے تو نے اپنی عافیت کا پردہ مسلمانوں پر ڈال رکھا ہے میرے رب اس گھر کی زیارت کو حج کہتے ہیں حج کے دو حرف ہیں ’’ح" اور "ج‘‘ ’’ ح" سے اگر میری حلاوت ایمانی اور ’’ ج" سے تیرا جلال مراد ہے تو تو اپنے جلال کی برکت سے اس ناتواں ضعیف بندے کے ایمان کی حلاوت کو شیطان سے محفوظ رکھنا‘‘

آواز آئی!
"اے میرے مخلص ترین عاشق و صادق بندے تو نے میرے حکم میرے جودو کرم اور میرے جلال کے توسل سے جو کچھ طلب کیا ہے تجھے عطا فرمایا ہمارا تو کام ہی مانگنے والے کا دامن بھر دینا ہے مگر بات تو یہ ہے کوئی مانگے تو سہی کسی کو مانگنے کا سلیقہ تو آتا ہو"

منقول