UCLkHN_A8TPz3oNUjsSrEgUg

Tuesday, January 17, 2017

یمریضوں کی زبانی سنیے کہ انہوں نے ایک خطر ناک بیماری سے کیونکر نجات پائی .سات آٹھ سال قبل کی بات ہے‘ میں حسب معمول مطب میں بیٹھا ہوا تھا۔ مریضوں کا کچھ زیادہ ہجوم نہیں تھا۔ اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ چونگا اٹھایا تو انمول ہسپتال کے ڈائریکٹر‘ ڈاکٹر مقبول احمد شاہد بول رہے تھے۔ کہنے لگے ’’بھائی وحید! یہ سنبلو بوٹی کیا ہے؟‘‘ میں نے کہا’’ بھائی جان! سنبلہ بوٹی کے بارے میں تو پڑھا ہے لیکن سنبلو کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ شاید اسی کو کہتے ہوں یا ہو سکتا ہے کوئی اور بوٹی ہو۔ لیکن آپ بتائیں کہ قصہ کیا ہے؟‘‘ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے’’ میرے پاس جہانیاں سے ایک ڈاکٹر صاحب دو سال سے آرہے تھے جن کی اہلیہ کو چھاتی کا سرطان تھا اور وہ مسلسل میرے زیر علاج تھیں۔ ڈاکٹر صاحب انہیں لے کر میرے پاس آیا کرتے تھے۔ آج وہ اکیلے آئے۔ میں نے ان کی اہلیہ کا حال پوچھا‘ تو فرمایا کہ الحمد للہ وہ بالکل ٹھیک ہیں۔ میں نے پوچھا کہ ہمارے علاج سے فائدہ ہوایا کہیں اور سے علاج کر وایا ہے؟ ’’انہوں نے جواب دیا‘ جہانیاں میں حکیم عبدالحمید صاحب کی بیٹی ناصرہ نے ایک نسخہ بتایا تھا‘ وہ استعمال کروایا۔ اللہ کے فضل سے ایک ماہ میں بالکل ٹھیک ہو گئیں۔ میں نے بعد کو بھائی جان عبدالحمید کو فون کر کے پوچھا تو وہ کہنے لگے ’ناصرہ انپے میاں زبیر اسلم (اس وقت سکواڈرن لیڈر) کے ساتھ کامرہ میں ہے لیکن ایک دفعہ ان خاتون کا ذکر ہوا‘ تو اسی نے بتلایا تھا کہ سنبلو استعمال کروائی ہے۔ آپ ناصرہ سے پوچھ کر مجھے بھی بتائیں کہ یہ کون سی بوٹی ہے اور کہاں ملتی ہے؟‘ ناصرہ ڈاکٹر مقبول شاہد کی بھانجی اور میری بھتیجی ہے۔ چند دن بعد اس سے رابطہ ہوا تو میں نے سنبلو کی بابت دریافت کیا۔ اس نے کہا ’’چچا جان! آج کل اس بوٹی کا موسم نہیں‘ یہ فروری کے آخر سے ستمبر اکتوبر تک ہوتی ہے لیکن میرے پاس اس کی جڑ پڑی ہوئی ہے۔ چند دن تک لاہور آرہی ہوں‘ لیتی آؤں گی۔‘‘ چند دن بعد وہ میرے پاس آئی تو ایک موٹی سی پیلے رنگ کی جڑمع چھلکا مجھے دی۔ میں نے پوچھا ’’بیٹے! تمہیں اس کے فوائد کا کیسے پتا چلا؟ ‘‘ کہنے لگیں ’’ہمارے پڑوس میں ایک خاتون کو چھاتی کا سرطان ہو گیا تھا۔ اس کے میاں نے کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد غرض ہر بڑے شہر کے ہسپتال سے علاج کروایا لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ تنگ آکر اس کے شوہر نے سوچا کہ اسے امریکہ لے جا کر علاج کرواؤں۔ وہ ویزے کے چکر میں تھے کے مانگنے والا کوئی فقیر محلے میں آیا۔ جب ان کے دروازے پہ اس نے صدادی‘ تو انہوں نے فقیر کو بڑی جھاؤیں پلائیں اور کہا میری بیوی کینسر میں مبتلا ہے اور تمہیں مانگنے کی پڑی ہے۔‘ ’’فقیر نے اس سے پوری کیفیت پوچھی اور کہا کہ کل وہ ایک بوٹی لاکر دے گا‘ اسے استعمال کرائیں۔ ان شاء اللہ امریکہ جانے کی نوبت نہیں آئے گی۔ اگلے روز وہ فقیر ایک بوٹی کی جڑ کے چھلکے اتار کر ان کے پاس لایا اور کہا’ صبح کو تین ماشے چھلکے ایک پیالی پانی میں بھگودیں اور شام کو کھانے کے آدھ گھنٹے بعد پی لیں۔ اسی طرح شام کو بھگو کر صبح پئیں۔‘‘ ’’انہوں نے ایسا ہی کیا۔ ایک مہینے بعد بیماری کا وجود بھی نہیں تھا۔‘‘ اب میں نے اس پیلے رنگ والی بوٹی کو چکھا تو اس کا ذائقہ انتہائی کڑوا تھا۔ میں اسے اپنے مطب میں لے گیا۔ خیال تھا کہ اس میں سے لکڑی کا ڈنٹھل نکال کر صرف چھلکے کو استعمال میں لاؤں گا کیونکہ سلمو کی جڑ کا چھلکا ہی بطور دوا مستعمل ہے۔ لیکن ہوتا وہی ہے جو اللہ کو منظو رہو۔ میں نے ابھی اسے مطب میں جا کر رکھا ہی تھا کہ شرق پور سے حکیم حاجی مشتاق صاحب تشریف لے آئے۔ وہ ہفتہ عشرہ بعد میرے پاس تشریف لاتے ہیں لیکن اس دفعہ وہ دو اڑھائی ماہ بعد آئے تھے۔ میں نے پوچھا ’’حاجی صاحب! خیریت ہے‘ آپ اتنا عرصہ کہاں غائب رہے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا ’’والد صاحب کو ہڈیوں کا سرطان (بون کینسر) ہو گیا ہے اور وہ کافی عرصہ ہسپتال میں داخل رہے۔ آج ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے اور اب ہم انہیں گھر لے جارہے ہیں۔ اگر آپ کے پاس کوئی دوا ہو تو عنایت فرمادیں۔‘‘ مجھے فوری طور پر خیال آیا کہ اللہ نے آج ہی سنبلو بوٹی بھیجی ہے اور آج ہی اس مرض کا مریض بھی آگیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ یہ بوٹی شاہراہ ریشم کے علاقے میں ہوتی ہے۔ آدھی آپ رکھ لیں اور آدھی مجھے واپس کر دیں۔ اسے باریک پیس کر ڈبل زیرو کے کیپسول بھر لیں اور صبح وشام بعد از غذا استعمال کرائیں۔ تھوڑی دیر بعد وہ آدھی جڑی بوٹی مجھے واپس کر گئے اور آدھی لے گئے۔ ابھی انہیں گئے ہوئے بمشکل ایک گھنٹہ ہوا ہو گا کہ اے پی پی والے ظہور الدین بٹ تشریف لے آئے۔ بٹ صاحب اور میں ایک ہی دور میں پنجاب یونیورسٹی میں پڑھتے رہے تھے‘ اس لیے بے تکلف دوست بھی ہیں۔ وہ آئے‘ تو میرے حال پوچھنے پر بے اختیار رونے لگے۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے’’اہلیہ کو جگر کا سرطان ہو گیا ہے۔ بچے چھوٹے چھوٹے ہیں۔ ان کا کیا بنے گا۔‘‘ میں نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ نے باقی دوائی غالباً بٹ صاحب ہی کے لیے رکھوائی تھی۔ میں نے وہ انہیں دے دی الحمد للہ ان کی اہلیہ کی طبیعت بحال ہو گئی۔ حاجی مشتاق صاحب تین ماہ بعد ملنے آئے۔ میں نے ان سے پہلا سوال ہی یہ کیا کہ والد صاحب کے بارے میں بتائیں۔ انہوں نے کہا ’’الحمد للہ! اب وہ بالکل ٹھیک ہیں اور اب تو مطب میں بھی بیٹھنے لگے ہیں۔‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’صرف سنبلوہی استعمال کروائی تھی یا کچھ اور بھی؟‘‘ فرمانے لگے ’’طاقت کے لیے خمیرہ گاؤ زبان عنبری دیتا رہا ہوں لیکن سرطان دور کرنے کے لیے صرف یہی بوٹی استعمال کرائی ہے۔‘‘ میں نے اللہ کا شکرادا کیا کہ بوٹی کا رآمد رہی۔ میرے پاس مزید بوٹی نہیں تھی اور مریض مسلسل آرہے تھے۔ میں چاہتا تھا کہ کہیں سے مزید بوٹی بھی مل جائے‘ تو اسے استعمال کروں۔ جب حاجی صاحب اس کے فوائد بیان کر رہے تھے‘’ تو لاہور کے ایک حکیم صاحب بھی میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے پوچھا ’’یہ کس بوٹی کا ذکر ہو رہا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’سنبلو کا۔‘‘ پوچھا ’’کہاں ہوتی ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’راولپنڈی سے پرے پرے… ایبٹ آباد‘ شمالی علاقہ جات‘ سوات اور شاہراہ ریشم پر۔‘‘ کہنے لگے ’’میرے مریدوں کی کیثر تعداد اس علاقہ میں رہتی ہے۔ کہیں تو آپ کے لیے ایک بوری منگوادوں۔‘‘ میں نے کہا ’’بوری کی تو ضرورت نہیں لیکن ایک ڈیڑھ کلو منگوا دیں تو نوازش ہو گی۔‘‘ پوچھنے لگے ’’کس کام آتی ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’سرطان کی بے شمار قسموں میں مستعمل ہے۔ مثلا ہڈیوں کا‘ جگر کا‘ خون کا اور چھاتی کا سرطان وغیرہ‘ لیکن ایک شرط ہے‘ یہ دوابلا معاوضہ دینی ہے‘ اس کا ایک پیسہ بھی لینا آپ پر حرام ہے۔‘‘ انہوں نے وعدہ کر لیا۔ کئی ماہ گزرگئے‘ نہ وہ آئے نہ دوا آئی۔ میں نے بھی تقاضا کرنا مناسب نہ سمجھا۔ ایک دن ایم اے اوکالج کے ایک پروفیسر جو ہو میوپیتھ بھی ہیں‘ میرے پاس بیٹھے تھے۔ باتوں باتوں میں کہنے لگے ’’میرے گھر کے قریب ایک حکیم صاحب سرطان کا بہت کامیاب علاج کرتے ہیں۔ پندرہ دن کا علاج ہے۔ صبح شام ایک ایک کیپسول کھانا ہوتا ہے۔ فی کیپسول پانچ سوروپے لیتے ہیں۔‘‘ میں نے ان کی رہائش کا پوچھا‘ مطب کا حدو داربعہ معلوم کیا اور ان کا قدکاٹھ پوچھا کیونکہ انہیں حکیم صاحب کا نام معلوم نہیں تھا۔ سب کچھ جاننے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ یہ تو وہی حکیم صاحب ہیں جنہیں میں نے نسخہ بتایا تھا۔ بہت دکھ ہوا کہ بلامعاوضہ دینے کا وعدہ کر کے وہ پانچ سو روپے فی کیپسول لے رہے ہیں۔ پروفیسر صاحب اٹھ کر گئے‘ تو میں نے حکیم صاحب کو فون کر کے انہیں بہت شرمسار کیا۔ مگر حکیم صاحب شرمندہ ہونے کے بجائے کہنے لگے ’’میں آپ کے کہے پر ہی عمل کر رہا ہوں۔ پانچ سوروپے فی کیپسول بھی مفت ہی ہے۔ ایلوپیتھک ادویہ پر لوگ لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں‘ اس لحاظ سے پندرہ ہزار روپے کی حیثیت ہی کیا ہے۔‘‘ میں نے ان سے مزید بات کرنا مناسب نہ سمجھا لیکن مجھے ان کی ذہنیت پر بے حد صدمہ ہوا۔ اتفاقاً انہیں دنوں تبلیغی جماعت کا سالانہ اجتماع تھا۔ اس سے فارغ ہونے کے بعد بے شمار لوگ میرے مطب آتے ہیں۔ ان میں دوبزرگ ایسے ہیں جو سالہا سال سے شاہراہ ریشم سے میرے پاس آ ہے ہیں۔ اس دفعہ بھی وہ آئے اور جاتے ہوئے مجھ سے کہنے لگے ’’اس علاقے میں کوئی خدمت ہو تو بتائیں۔‘‘ میں نے ان سے اس بوٹی کا ذکر کیا لیکن انہیں سمجھ نہ آئی۔ میں نے انہیں بتایا کہ یہ ایک قد آدم کا نٹے دار پودا ہے۔ اس میں پھل لگتا ہے۔ زرد رنگ کی جڑ ہوتی ہے۔ بعض جگہ پر سیاہ رنگ کی جڑ بھی ہوتی ہے۔ اب وہ کہنے لگے ’’ہم سمجھ گئے۔ ہمارے علاقے میں اسے سملو کہتے ہیں۔‘‘ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ جاتے ہی اس بوٹی کی جڑ کا چھلکا مجھے بھیج دیں گے اور انہوں نے وعدہ نبھایا بھی… ایک کلو کے قریب سملویا سنبلو بذریعہ ڈاک مجھے مل گئی۔ اسے میں نے بے شمارا مراض میں آز مایا مثلا اسے بخار پر جو کسی دو اسے نہیں اترا وہ اترگیا۔ نقرس‘ وجع المفاصل اور اعصابی درد‘ سملو اور کچلہ مدبر ملا کر صبح شام ایک ایک ماشہ استعمال کرانے سے دور ہو گئے۔ سملو کی لکڑی کا چھوٹا ساٹکڑا رات سوتے وقت منہ میں رکھنے سے گلے کی گلٹیاں (ٹانسل) دور ہوگئیں۔ ایک دفعہ اسلام آباد جانا ہوا’ تو حکیم منیر احمد قریشی مصنف کتاب النباتات سے میں نے پوچھا ’’کسی مرض میں آپ نے سملو بھی استعمال کیا؟‘‘ کہنے لگے ’’میں نے ایک ہفتہ پہلے ذیابیطس کے مریض کو صبح شام تین تین ماشہ سملو پانی کی ایک پیالی میں بھگو کر دی تھی۔ اسے کھانے کے دوگھنٹے بعد ۳۷۰ شکر (شوگر) تھی۔ آج ایک ہفتہ بعد وہ آیا۔ رپورٹ پوچھی تو اس نے بتایا کہ ۱۸۰ ہے۔‘‘ حاجی مشتاق صاحب شرق پور والے بھی اپنے والد کے علاج کے بعد سملو کا بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ چند دن پہلے میں نے ان سے پوچھا ’’کوئی تجربہ؟‘‘ فرمانے لگے ’’ڈیڑھ دوماہ پہلے ہمارے گاؤں کا ایک لڑکا چلتی بس کی چھت سے گرگیا‘ تو اس کے گھٹنے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ اسے ہسپتال داخل کروادیا گیا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ ٹانگ کاٹنی پڑے گی۔ لڑکے کی عمر اٹھارہ انیس سال تھی‘ وہ آمادہ نہ ہوا‘ کہنے لگا ’ساری عمر کا معاملہ ہے‘ میں لنگڑابن کر زندگی گزارنا نہیں چاہتا۔‘ ’’یوں گھر والے اسے واپس لے آئے۔ ایک دن وہ اسے میرے پاس لائے۔ میں نے اسے صبح شام تین تین ماشہ سملو ایک پیالی پانی میں ملا کر پلانے کو کہا۔ اللہ کی قدرت کے قربان جائیے۔‘ بیسویں دن وہ لڑکا اپنی ٹانگوں پر چل کر میرے پاس آیا۔‘‘ مطب پر ایک اور صاحب بھی یہ واقعہ سن رہے تھے‘ فرمانے لگے ’’ہمارے ایک عزیز کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔ میں نے سملو کی جڑ کے چھلکے باریک پیس کر انڈے کی سفیدی میں ملا کر پٹی کی تھی۔ الحمد للہ پندرہ دن میں مریض ٹھیک ہو گیا۔‘‘ میں نے مختلف طبی کتب میں سملو کے بارے میں مطالعہ کیا تو پتہ چلا کہ اس کا لاطینی نام بربیرس اریسٹاٹا (Berebris aristata ) ہے اور یہ نباتات کے خاندان زرشکیہ (Berberideae ) سے تعلق رکھتی ہے۔ دراصل رسوت زررشک (Barberry ) کی جتنی بھی اقسام ہیں‘ وہ اس نباتی خاندان میں جمع ہیں۔ مثلا یورپ کی عام زرشک کالا طینی نام بربیرس دیگرس ہے۔ حکیم رام لبھایا‘ سابق پرنسپل طبیہ کالج دہلی اپنی معروف تضنیف’ بیان الادویہ’ میں لکھتے ہیں کہ سملو کاسفوف چائے یا دودھ کے ساتھ کھایا جائے تو پیٹ کا درد دور کرتا ہے۔ اگر اس کا لیپ کیا جائے‘ تو پھوڑے پھنسیوں کی تحلیل کرتا ہے۔ آنکھ دکھنے میں اس کی لکڑی کو گھس کر آنکھ کے اردگرد لگایا جائے تو درد میں تسکین ہوتی ہے۔ ایور ویدک کی معروف کتاب‘ شارنگدھر میں اسے یرقان (ہیپاٹائٹس) کے لیے بھی مفید بتایا گیا ہے۔ سملو کے جو شاندے میں شہد ملا کر پلانا مفید ہے۔ کتاب المفردات میں مظفر حسین اعوان لکھتے ہیں کہ سملو پسینہ لاکر بخاراتا ردیتا ہے۔ اس کی جڑکی چھال کا جوشاندہ تلی اور جگر بڑھ جانے میں مفید ہے۔ علامہ کبیر الدین مخزن المفردات میں بیان کرتے ہیں کہ یہ زیادہ تر امراض چشم میں مستعمل ہے۔ یرقان‘ پھوڑے پھنسیوں اور خارش میں بھی استعمال کی جاتی ہے۔ انڈے کی سفیدی کے ہمراہ اس کا لیپ ہڈی جوڑنے اور جمے ہوئے خون کو روکنے کے لیے بھی مستعمل ہے۔ ’خزائن الادویہ‘ مفردات کی کتابوں میں سب سے ضخیم ہے۔ یہ بڑی جسامت کے چار ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ اسے مفردات کے موضوع پر کتابوں کی ماں تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کے مصنف علامہ نجم الغنی کہتے ہیں کہ سملو اور صندل زرد ملا کر استعمال کرنے سے جریان منی اور پیشاب کی رکاوٹ دورہو جاتی ہے۔ یہ مثانے کی پتھری کو توڑتی اور کھانڈ کے ساتھ کھانے سے امساک پیدا کرتی ہے۔ پھوڑے پھنسی‘ زخموں اور خارش میں اس کا لیپ مفید ہے۔ یہ پیٹ کے کیڑے نکالتی اور ورم تحلیل کرتی ہے۔ اس کی ٹہنیوں کو جوش دے کر پلانے سے پسینہ اور دست آتے ہیں اور جوڑوں کا دردرفع ہو جاتا ہے۔ اس کی جڑ‘ چھال اور سونٹھ ہم وزن پیس کر دن میں تین بار لینے سے دست بند ہو جاتے ہیں۔ باقی فوائد تو مفردات کی کتابوں میں کسی نہ کسی جگہ درج ہیں لیکن یہ کہیں اندراج نہیں کہ یہ جڑی بوٹی ذیا بیطس اور جگر‘ خون‘ چھاتی اور ہڈیوں کے سرطان کا علاج بھی کرتی ہے۔ چونکہ یہ فوائد اب معلوم ہو چکے ہیں لہٰذا طبی کتب میں ان کا ندراج بھی ہو جانا چاہیے۔

سملو- سرطان دفع کرنے والی کراماتی جڑی بوٹی

No comments:

Post a Comment