وہ ابھی نو عمر ہی تھے، عیسائی فوجیں، " رہا " پر قبصہ کر کے مال واسباب لوٹ کر عورتوں کو پکڑ کر لے جاتی ہیں۔ یہ ظلم دیکھ کر وہ نو عمر لڑکا ایک ترکی بوڑھے کو لے کر سلطان عمادالدین زنگی رحمہ اللہ تعالٰی کے پاس پہنچتا ہے ۔ عیسائیوں کے مظالم سے بادشاہ کو آگاہ کرتا ہے۔ اس کی اسلامی حمیت وغیرت کو بیدار کرتا ہے اور رو روکر ( مدد کے لئے) فریاد کرتا ہے۔
نیک دل بادشاہ نورالدین زنگی کو ان حالات کا علم ہوتا ہے تو تمام فوجیوں کو جمع کرتا ہے ۔ انہیں " رہا " کے حالات سناتا ہے اور جہاد پر ابھارتا ہے اور اعلان کرتا ہےکہ:
" کل صبح میری تلوار " رہا " کے قلعے پر لہرائے گی، تم میں سے کون میرا ساتھ دے گا ؟ "
یہ اعلان سن کر تمام فوجی حیران رہ جاتے ہیں کہ یہاں سے " رہا " 90 میل کی دوری پر ہے، راتوں رات وہاں کیسے پہچا جاسکتا ہے ؟ یہ تو کسی طرح ممکن نہیں۔ تمام فوجی ابھی غور ہی کررہے تھے کہ ایک نو عمر لڑکے کی آواز گونجتی ہے: " ہم بادشاہ کا ساتھ دیں گے ۔ "
لوگوں نے سر اٹھا کر دیکھا تو ایک نو عمر لڑکا کھڑا تھا، بعضوں نے فقرے کسے کہ : " جاؤ میاں کھیلو کودو! یہ جنگ ہے بچوں کا کھیل نہیں۔ "
سلطان نے یہ فقرے سنے تو غصّے سے چہرہ سرخ ہوگیا، بولا: " یہ بچہ سچ کہتا ہے اس کی صورت بتاتی ہے کہ یہ کل میرا ساتھ دے گا ۔ یہی وہ بچہ جو " رہا " سے میرے پاس فریاد لے کر آیا ہے ِ ۔ " یہ سن کر فوجیوں کو غیرت آتی ہے، سب تیار ہوجاتے ہیں اور اگلے روز دوپہر تک " رہا " پہنچ کر حملہ کر دیتے ہیں۔ گمسان کی جنگ ہوئی ، عیسائی سپہ سالار بڑی آن وبان کے ساتھ مقابلے کے لئے نکلا۔ سلطان زنگی رحمہ اللہ تعا لٰی نے اس پر کا ری ضرب لگائی، مگر لوہے کی زرہ نے وار کو بے اثر بنادیا۔ عیسائی سپہ سالار نے پلٹ کر سلطان زنگی رحمہ اللہ تعالٰی پر حملہ کیا اور نیزہ تان کر سلطان کی طرف پھینکنا ہی چاہتا تھا کہ نوعمر لڑکے کی تلوار فضا میں بجلی کی طرح چمک اٹھی اور زرہکے کٹے ہوئے حصّے پر گر کر عسائی سپہ سالار کے دوٹکڑے کرکے رکھ دئیے۔ عیسائی سپہ سالار کے موت کے گھاٹ اترتے ہی عیسائی فوج بھاگ کھڑی ہوئی اور " رہا " پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔
آج ہر شخص کی زبان پر نو عمر کی شجاعت کے چرچے ہیں اور یہ واقعہ تاریخ اسلام میں سنہرے الفاظ سے لکھا جاتا ہے۔اس نوعمر لڑکے کا نام صلاح الدین ایوبی تھا جس پر آج بھی سب مسلمانوں کو فخر ہے
نیک دل بادشاہ نورالدین زنگی کو ان حالات کا علم ہوتا ہے تو تمام فوجیوں کو جمع کرتا ہے ۔ انہیں " رہا " کے حالات سناتا ہے اور جہاد پر ابھارتا ہے اور اعلان کرتا ہےکہ:
" کل صبح میری تلوار " رہا " کے قلعے پر لہرائے گی، تم میں سے کون میرا ساتھ دے گا ؟ "
یہ اعلان سن کر تمام فوجی حیران رہ جاتے ہیں کہ یہاں سے " رہا " 90 میل کی دوری پر ہے، راتوں رات وہاں کیسے پہچا جاسکتا ہے ؟ یہ تو کسی طرح ممکن نہیں۔ تمام فوجی ابھی غور ہی کررہے تھے کہ ایک نو عمر لڑکے کی آواز گونجتی ہے: " ہم بادشاہ کا ساتھ دیں گے ۔ "
لوگوں نے سر اٹھا کر دیکھا تو ایک نو عمر لڑکا کھڑا تھا، بعضوں نے فقرے کسے کہ : " جاؤ میاں کھیلو کودو! یہ جنگ ہے بچوں کا کھیل نہیں۔ "
سلطان نے یہ فقرے سنے تو غصّے سے چہرہ سرخ ہوگیا، بولا: " یہ بچہ سچ کہتا ہے اس کی صورت بتاتی ہے کہ یہ کل میرا ساتھ دے گا ۔ یہی وہ بچہ جو " رہا " سے میرے پاس فریاد لے کر آیا ہے ِ ۔ " یہ سن کر فوجیوں کو غیرت آتی ہے، سب تیار ہوجاتے ہیں اور اگلے روز دوپہر تک " رہا " پہنچ کر حملہ کر دیتے ہیں۔ گمسان کی جنگ ہوئی ، عیسائی سپہ سالار بڑی آن وبان کے ساتھ مقابلے کے لئے نکلا۔ سلطان زنگی رحمہ اللہ تعا لٰی نے اس پر کا ری ضرب لگائی، مگر لوہے کی زرہ نے وار کو بے اثر بنادیا۔ عیسائی سپہ سالار نے پلٹ کر سلطان زنگی رحمہ اللہ تعالٰی پر حملہ کیا اور نیزہ تان کر سلطان کی طرف پھینکنا ہی چاہتا تھا کہ نوعمر لڑکے کی تلوار فضا میں بجلی کی طرح چمک اٹھی اور زرہکے کٹے ہوئے حصّے پر گر کر عسائی سپہ سالار کے دوٹکڑے کرکے رکھ دئیے۔ عیسائی سپہ سالار کے موت کے گھاٹ اترتے ہی عیسائی فوج بھاگ کھڑی ہوئی اور " رہا " پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔
آج ہر شخص کی زبان پر نو عمر کی شجاعت کے چرچے ہیں اور یہ واقعہ تاریخ اسلام میں سنہرے الفاظ سے لکھا جاتا ہے۔اس نوعمر لڑکے کا نام صلاح الدین ایوبی تھا جس پر آج بھی سب مسلمانوں کو فخر ہے
No comments:
Post a Comment